خالد قیوم تنولی
عمر عزیز تب یہی کوئی چھ یا سات برس ہوگی۔ والد صاحب رخصت پر کراچی سے گاؤں آئے ہوئے تھے۔ خوب رونق لگی رہتی تھی۔ موسم گرما کا تھا۔ سب سے چھوٹے چچا ندی سے مچھلیاں شکار کر کے لائے جو تندور میں‛ نمک مرچ لگا کر گِرل کی گئیں۔ سب صحن میں بچھی چارپائیوں پر بیٹھے تھے۔ چاندنی چہار سو کھلری ہوئی تھی۔ ہمارے حصے میں جو مچھلی کا ایک ٹکڑا آیا ‛ اسے ہم نے ناکافی سمجھ کر اودھم مچا دیا۔ بہلانے اور چپ کرانے کو دونوں چچاؤں‛ چچی‛ چھوٹی دادی اور ہماری ماں جی نے اپنے اپنے حصے کو تقسیم کیا‛ چمکارا اور دیگر لالچ بھی دیے مگر ہمیں عزت راس نہ آئی۔ نتیجہ یہ کہ والد صاحب اٹھے‛ لپکے اور جیسے چیل مرغی کے چوزے پر جھپٹتی ہے‛ عین اسی طرح ہمیں دبوچا اور پھر ننھی سی جان کو روئی کی مانند دُھن کر رکھ دیا۔ جو ہماری نصرت کو بڑھے ‛ ایک ایک کرارا ہاتھ انھیں بھی پڑا۔ پھر کہاں کی خانگی محفل اور مچھلی ۔۔۔ سب کچھ درہم برہم ہو گیا۔ ہمارا کَچھا گیلا ہو گیا۔ چھوٹی دادی نے ابا جی کو پرے دھکیلا‛ ہمیں چھینا اور سامنے ہی منجھلے چچا کے گھر میں موجود بڑی دادی کو با آوازِ پکارا۔ وہ اس سے پہلے ہی ہماری چیخم دہاڑ سن کر خبر گیری کو نکل چکی تھیں ‛ گلی میں تھیں لہذا چلتے چلتے کہا : "آ رہی ہوں۔”
عہد زریں کا ہمہ جہت نام،عمر خیام
”خان بابا ۔۔۔ پھول وہی دیتے ہیں جنھیں دل درکار نہ ہو۔“
اب ابا جی یہ دیکھ اور سن کر مشوش ہوئے۔ ادھر ادھر کھسکنے کو ہی تھے کہ اسی اثناء میں بے کواڑ در سے دادی داخل ہوئیں اور آؤ نہ تاؤ دیکھے بغیر سنتّتھے کے ٹُنڈَر والے جھاڑو سے ابا جی پر پل پڑیں۔ ہمیں بھی شہہ ملی تو ابا جی کے زانو پر دانت گاڑنے کی بے طرح کوشش کی۔ ابا جی ہنستے جاتے اور سعادتمندی کے مارے دادی کے وار اور کوسنے سہتے جاتے۔ خیر جلد ہی مطلع صاف ہو گیا۔ ہم ہچکیاں اور سسکیاں لیتے دادی کی آغوش میں ہی سو گئے۔
صبح آنکھ کھلی تو خود کو ابا جی کے سینے سے چمٹے ہوئے دیکھا۔ مقیم کون ہوا‛ مقام کس کا تھا۔
ناشتے کے بعد ابا جی نے پی کیپ پہنی‛ ربڑ کے فُل بوٹ چڑھائے‛ جال اٹھایا اور ہماری انگلی پکڑ کر ندی کی اور چلے۔
جال پر جال پھینکے گئے۔ ہر بار دو تین چھوٹی موٹی مچھلیاں شکار ہوتیں جنھیں ابا جی جال میں سے نکال کر ہماری طرف اچھال دیتے۔ ہم کنارے کنارے کاؤ بوائے بنے چلتے رہے۔
کچھ دور اور دیر تک یہ سلسلہ چلا۔ پھر جہاں سے آغاز ہوا تھا وہیں دونوں باپ بیٹا واپس آ گئے مگر کپڑے کا تھیلا ہنوز خالی تھا۔ ابا جی نے صرف یک لفظی سوال پوچھا : ” مچھلیاں؟”
ہم نے رات والی ناراضی کے تحت ہاتھ کے اشارے سے بتایا کہ واپس پانی کے سپرد کر دیں۔ابا جی نے مٹھیاں بھینچیں‛ کچھ تلملائے بھی اور زیرِ لب بڑبڑائے بھی ۔۔۔ مگر پھر ماتھے اور گالوں پر بوسے دے کر چھوڑ دیا
خالد قیوم تنولی خطہ شمال کے اردو اور ہندکو ادب کا شناسا چہرہ،جو لطافت و حساسیت کے جذبے سے لبریز تحاریر کے زریعے معاشرتی پہلوٶں کو اجاگر کرنے کا ملکہ رکھتے ہیں