سید عتیق الرحمن،ایبٹ آباد
مشرق وسطیٰ گذشتہ تقریبا ستر سال سے مسلسل بدامنی و خونریزی کا شکار ہے ،اگرچہ اس عرصہ کے دوران خطے میں بہت سی تبدیلیاں رونما ہوئیں ،اور انقلاب برپا ہوئے ،لیکن اس معاملے کی دوفریقی حیثیت 1948 میں ریاست اسرائیل کے قیام کے بعد بنی
جہاں ایک طرف فلسطین اور عرب فریق تھے تو دوسری جانب ریاست اسرائیل کے پشت پناہ ،جس کے نتیجے میں بالخصوص فلسطین و اسرائیل کی مناقشت کے نتیجے میں اب تک لاکھوں لوگ لقمہ اجل بن چکے ہیں اور کئی لاکھ آج بھی دربدر ہیں
اور ہر گزرتے دن کے ساتھ یہ معاملہ کسی سلجھائو کی طرف جانے کے بجائے گھمبیر تر صورت اختیار کرتا نظر آرہا ہے ۔حالیہ ایام کے دوران ایک بار پھر مشرق وسطیٰ مزید خلفشار کی طرف بڑھتا دکھائی دے رہا اور عالمی ماہرین اس آگ کے پھیلائو کا خدشہ ظاہر کررہے ہیں
اسرائیل اور فلسطین کے تنازعہ کا اصل سبب کیا ہے ،اس بارے میں ہم ریاست اسرائیل کے دعوے کے پس منظر کیساتھ ساتھ ماضی میں اس سے جڑے واقعات کا اجمالی جائزہ لیں گے ۔
اسرائیل حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پوتے ، حضرت اسحاق علیہ السلام کے فرزند اور حضرت یوسف علیہ السلام کے والد یعنی حضرت یعقوب علیہ السلام کا لقب تھا ۔ موجودہ اسرائیل کوئی ملک نہیں بلکہ فلسطینیوں کے علاقوں پر یہودیوں نے قبضہ کر کے اسے اسرائیل کا نام دے رکھا ہے ۔
اسرائیل کے قیام کا مطالبہ کافی پرانا ہے ماضی میں افریقی ملک یوگنڈا اور ارجنٹائن کے کچھ علاقوں میں بھی اس ریاست کے قیام پر غور و خوض ہوا مگر قرعہ فال فلسطین کے نام پر ہی نکلا ۔ کیوں کہ یہودی اس علاقے کو ارض موعود کہتے ہیں اور وہ فلسطین کے علاوہ کسی اور جگہ اپنی قومی ریاست بنانے پر آمادہ نہ ہو سکے ۔
ارض موعود یعنی وہ زمین جو یہودیوں کو دینے کا وعدہ ہے ۔ یہ وعدہ حضرت موسیٰ علیہ السلام سے اللہ نے کیا تھا۔ اگر ہم یہودیوں کے نقش قدم کی تاریخ دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ انہیں سب سے پہلے ایرانی بادشاہ بخت نصر نے یروشلم سے نکالا تھا جہاں وہ حضرت موسیٰ کی معیت میں مصر سے نکلنے کے طویل عرصہ بعد پہنچے تھے۔
یہ بھی پڑھیں
10 رمضان المبارک ،سندھ کے دروازے پر اسلام کی دستک
ترکی کی بڑھتی ہوئی بحری طاقت سے اسرائیل خوفزدہ کیوں ؟
اسے بابل کی اسیری کا زمانہ کہا جاتا ہے ۔ (یہ پانچویں اور چھٹی قبل مسیح کے درمیان ہے جب بخت نصر نے یروشلم سے یہودیوں کو گرفتار کر کے بابل لایا۔ پانچ سو سال بعد دوسری اسیری کا زمانہ ہے )
اس زمانے سے لیکر عثمانی سلطان سلیمان قانونی 1620 ۔ 1680ھ کے دور تک یہ یہودی یورپی علاقوں روس، جرمنی ، بلقان ، اور سالونیکا سمیت دیگر یورپی ممالک میں آباد رہے۔ عثمانی خلافت قائم ہونے کے بعد سالونیکا کو صوبے کا درجہ ملا تو یہ یہودی دولت عثمانیہ کے شہری بن گئیے ۔
یہ یہودی کم و بیش انیس سو سال سے یورپ روس اور بلقان وغیرہ میں آباد رہے۔ سالونیکا میں آباد اشکنازی یہودیوں میں سے شبتائی (1627 تا 1678ء) نام کے ایک یہودی نے 1648ء میں دعویٰ کیا کہ میں وہی مسیح ہوں جس کا انتظار کیا جا رہا ہے ۔

یہ پہلا یہودی تھا جس نے فلسطین میں صیہونی ریاست قائم کرنے کا اعلان کیا ۔ شبتائی کے پیروکاروں کو ڈونمہ فرقہ کہا جاتا ہے ۔ تاریخ دولت عثمانیہ کے مطابق شبتائی نے کہا کہ ہم سلیمان علیہ السلام بن داؤد علیہ السلام کے وارث ہیں اور فلسطین میں یہودیوں کو آباد کر کے وہاں یہودیوں کی قومی ریاست قائم کرنا ہمارا فرض ہے ۔ ہماری قومی ریاست کا دارلحکومت فلسطین ہو گا ۔
اس نے اپنے طور پر دنیا کو 88 حصوں میں تقسیم کر کے ہر حصے کے بادشاہ مقرر کئیے ۔ اور یہودیوں کے کنیسا میں دیئے جانے والے خطبے سے سلطان محمد چہارم کا نام نکال کر اپنے نام کا خطبہ شروع کر دیا ۔ دولت عثمانیہ نے بغاوت اور نبوت کے جھوٹے دعوے پر شبتائی کو گرفتار کر لیا تو اس نے اسلام قبول کرنے کا اعلان کر کے جان چھڑائی ۔

تاریخ دولت عثمانیہ کے باب الیہود والعثمانیہ کے مطابق شبتائی اندر سے یہودی رہا اور بظاہر اسلام قبول کر لیا ۔شبتائی کو 1773ء میں جلاوطن کر دیا گیا اور پانچ سال بعد وہ طبعی موت مر گیا ۔ اگلے ایک سو سال بعد دوبارہ یہودی وطن کا تصور دوبارہ زندہ ہوا ۔
1880ء میں عثمانیوں کے ساتھ روس کی جنگ کے بعد دنیا بھر سے سرکردہ یہودیوں کی ایک کانگریس بنانے کے لیئے ایک یہودی تھیوڈور ہرٹزل نے کوششیں شروع کر دیں۔ یہ خواب مزید سترہ سال بعد شرمندہ تعبیر ہوا ۔
عالمی صیہونی تحریک کا باقاعدہ قیام 1897ء میں عمل میں لایا گیا ۔ اس تحریک میں دنیا بھر کے بااثر یہودیوں کو شامل کیا گیا ۔ صیہونی تحریک کے پہلے سربراہ تھیوڈرہرٹزل نے دنیا بھر سے یہودیوں کو اکٹھا کیا اور انہیں فلسطین میں اسرائیل نامی ریاست قائم کرنے پر ابھارا ۔
اس وقت فلسطین خلافت عثمانیہ کا ایک صوبہ یا ولایت تھی جس کا والی عثمانی سلطان مقرر کرتا تھا ۔ ایسی صورت میں فلسطین میں یہودی ریاست قائم کرنے کی اجازت عثمانی خلیفہ سے حاصل کرنا لازم تھی ۔
ہرٹزل نے 1901 میں خلیفہ سلطان عبدالحمید ثانی سے قسطنطنیہ موجودہ استنبول میں ملاقات کی مگر سلطان نے اسرائیل کی اجازت دینے سے انکار کر دیا ۔ لیکن اس کے باوجود یہودیوں نے مل کر دنیا بھر کے حکمرانوں اور مقتدر طبقات کو اپنا ہمنوا بنانے کی کوششیں جاری رکھیں ۔
وہ جرمن بادشاہ ولیم اور زار روس سمیت تقریباً ہر بااثر حکومت کو ساتھ ملانے کے مشن پر کاربند رہے۔ عثمانی سلطان کو ایک بغاوت کے بعد پارلیمان قائم کرنے پر مجبور کیا گیا
اور اگلے ہی برس یعنی 1908ء میں اسی پارلیمان کے ذریعے سلطان عبد الحمید ثانی کو برطرف کر دیا گیا۔ اور اس کی جگہ نیا برائے نام خلیفہ مقرر کردیا۔

ازاں بعد جنگ بلقان 1911-12 میں یہودیوں نے عثمانیوں کو اپنی سازشوں سے زیر کر لیا ۔ اگلے دو سالوں میں دنیا پر جنگ عظیم اول مسلط ہوئی۔ جس کے ذریعے خلافت عثمانیہ سے اتحادی ممالک برطانیہ فرانس ، اٹلی ، جاپان ، امریکہ اور روس وغیرہ نے شام ، عراق اور فلسطین سمیت بلاد عرب کو چھین لیا ۔
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔