خالد زبیر پیرزادہ


آزاد کشمیر میں الیکشن کی گہما گہمی آخری مراحل کو پہنچ چکی ہے۔ ریاستی اور غیر ریاستی جماعتیں حصولِ اقتدار کے لیے ظاہراً دست وگریباں جب کہ درون خانہ باہم شیروشکر ہیں۔ گزشتہ الیکشن میں یہ ناچیز بھی بڑھ چڑھ کر اس مک مکا والے منافقانہ کھیل کا حصہ بنا تھا مگر بعد ازاں درست سمت کے تعین اور ذہنی ارتقا کے سبب اس سارے عمل سے کنارہ کشی اختیار کر لی۔

کشمیر الیکشن اصل میں چار طرح کی جماعتوں کے مابین باہمی دلچسپی کے معاملات کا طے پا جانا ہے۔ پہلی ریاستی جماعتیں ہیں جن میں کبھی مسلم کانفرنس سر فہرست ہوا کرتی تھی مگر اب تقریباً معدوم ہے۔

دوسری جماعتیں غیر ریاستی ہیں جن میں مسلم لیگ ، پیپلز پارٹی، پاکستان تحریک انصاف سر فہرست ہیں اور اصل مفاہمت بھی ان کے ہی درمیان ہوتی ہے۔ تیسری جماعتیں مذہبی جماعتیں ہیں جو نہ صرف پاکستان بلکہ کشمیر میں بھی بارہا بری طرح پٹ چکی ہیں اور جنہیں عالمی اور قومی قوتیں اپنے آلہ کار کے طور پر استعمال کرنے کے بعد ٹشو پیپر کی مانند کھڈے لائن لگا دیتی ہیں۔


یہ بھی پڑھیں 

  1. کشمیر کے انتخابی نتائج مستقبل کے منظرنامے کا تعین کرینگے
  2. کشمیر کی تقسیم ناقابل قبول ،غلام نہیں‌ برابرحقوق چاہتے ہیں‌،راجہ فاروق حیدر
  3. آزادکشمیرالیکشن کمیشن نے امین گنڈاپور کو کیوں‌ نکالا ؟؟؟؟
  4. 13 جولائی اورتحریک آزادی کشمیر کو دوام بخشنے والی 22 شہیدوں‌ کی اذان

چوتھی جماعتیں خود مختار کشمیرکی حامی یا قوم پرستوں پر مشتمل ہیں جن میں سے کچھ الیکشن کا بائیکاٹ کر رہی ہیں اور کچھ اس عمل کا حصہ ہیں۔ پانچویں ایک اور سانجھے دار بھی ہیں جو کہ آزاد امیدوار ہوتے ہیں۔

یہ آزاد امیدوار عموماً ابن الوقت کا کردار ادا کرتے ہیں اور جیتنے والی جماعت میں شامل ہو کر مفادات حاصل کر لیتے ہیں۔

حالیہ الیکشن میں مسلم لیگ ن کی الیکشن مہم سب سے زیادہ زوروں پر رہی کیونکہ مریم نواز بذات خود اس ساری مہم کا حصہ رہیں۔ پیپلز پارٹی بھی اپنی افرادی قوت کا بھرپور مظاہرہ کر رہی ہے اور پاکستان تحریک انصاف بھی حصولِ اقتدار کے لیے سر دھڑ کی بازی لگا رہی ہے۔

عموماً کشمیر میں وہی جماعت برسر اقتدار آتی ہے جس کی مرکز میں حکومت ہوتی ہے۔ تبدیلی سرکار کے ہوائی دعوؤں اور صفر زمینی نتائج کے باعث عوام کافی نالاں ہیں مگر قانون تو طاقتور کا ہی مانا جاتا ہے۔

شنید ہے کہ تحریک انصاف کے حکومت میں آنے سے کشمیر کا معمہ بھی حل ہونے کے امکانات ہیں اور لگ یہی رہا ہے کہ کشمیر کو پاکستان کا حصہ بنانے کی حکمت عملی زیر غور ہے۔یہاں یہ امر بھی قابل غور ہے کہ ذکر کردہ ساری جماعتیں سرمایہ دارانہ یا جاگیرداری نظام کی آلہ کار ہیں۔

اور یہ دو نظام کبھی بھی عوام دوست نہیں ہو سکتے۔ آپ کتنا اچھا اور دیانت دار امیدوار ہی کیوں نہ لے آئیں اصل طاقت تو جماعت کے پاس ہوتی ہے کیونکہ فیصلے اور قانون سازی تو جماعت کرتی ہے اور جماعت جب ظلم اور استحصال کے نظام کی حمایتی ہوگی تو انفرادی طور پر کسی حاجی، نیک ، پرہیز گار، متقی آدمی کے ووٹ کی کوئی حیثیت اور اہمیت نہیں رہ جاتی۔

اتفاق کی بات کہ آزاد کشمیر کے انتخابات اور قربانی کا موسم ایک ساتھ وارد ہوا ہے ۔امت مسلمہ اس فریضے سے عہدہ برآ ہورہی ہے۔ کشمیری قوم بھی گزشتہ سات دہائیوں سے مسلسل قربانیاں دے رہی ہے اور ان قربانیوں کے نتائج نادیدہ قوتیں اپنے حق میں استعمال کر رہی ہیں۔

ان نادیدہ قوتوں نے کشمیری نوجوانوں کو جذباتی ، متشدد اور مفاد پرست بنا کر اپنے بیرونی آقاؤں کی خوشنودی کی خاطر انہیں ایک ایسی جنگ میں جھونکے رکھا جس کا خمیازہ ہماری آنے والی نسلوں کو بھگتنا ہوگا۔قربانیوں کا یہ لامتناہی سلسلہ اب بند ہو جانا چاہیے۔

اب کشمیری قوم اور نوجوان مزید کسی پرائی جنگ کا حصہ نہیں بن سکتے۔ نوجوانوں کو اب کلاشنکوف اور بندوق کے بجائے تعلیم اور شعور دینے کی ضرورت ہے۔ عالمی سامراجی قوتوں کے مفادات کے تحفظ کے لیے کشمیری نوجوانوں کا قتل عام اب بند ہو جانا چاہیے۔ نوجوان فہم و ادراک رکھتے ہیں، وہ اب مزید کسی کی لگائی ہوئی آگ کا ایندھن نہیں بن سکتے۔

25 جولائی کو الیکشن میں حصہ ضرور لیجیے لیکن اس سے پہلے اپنا محاسبہ کر لیجیے کہ ان تمام جماعتوں نے سوائے استحصال، طبقاتی نظام، فریب، دھوکہ دہی، بھوک، افلاس، غربت اور لاچارگی کے ہمیں آج تک کیا دیا ہے؟

الیکشن میں حصہ ضرور لیں لیکن اس سے پہلے اپنی قومی شناخت کا جائزہ لیجیے کہ ہمیں آج تک جس شناخت کے بحران کا سامنا ہے اس کا اصل زمہ دار کون ہے؟قدرتی وسائل سے مالامال اس زرخیز خطے پر بیرونی طاقتوں کی للچائی ہوئی نظریں کیوں گڑی ہوئی ہیں۔

اپنے ووٹ کا حق استعمال کیجیے لیکن سرمایہ داری اور جاگیرداری کے تحفظ کے لیے نہیں بلکہ قوم اور وطن کے لیے، اپنے حقوق کے لیے، اپنی شناخت کے لیے۔ الیکشن کے بعد یہ تمام جماعتیں اور ان کے نمائندے ایسے غائب ہوں گے جیسے گدھے کے سر سے سینگ غائب ہوتے ہیں

لیکن میں نے اور آپ نے ہمیشہ یہیں رہنا ہے۔ ہم اسی دھرتی اور سرزمین کے باسی ہیں۔ ہمارے آپس کے تعلقات صدیوں پر محیط ہیں۔ سیاسی آلہ کاری کی خاطر تعلقات اور روابط کو ختم مت کیجیے۔

مجھے کامل امید ہے کہ یہ قوم جلد یا بدیر آزادی کا سورج طلوع ہوتا ہوا دیکھے گی۔